حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حجت الاسلام شکیبائی نے نہج البلاغہ کی رو سے صدر مملکت اورحکمران کی 15 اخلاقی صفات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
نہج البلاغہ کے اس استاد نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: اخلاقیات کا جو مفہوم آج ہم پیش کر رہے ہیں اس کا مطلب صرف انسانی خصلتوں اور خواص سے متعلق اس کی اصطلاحی تعریف نہیں ہے بلکہ جامع نظریہ کے ساتھ ہماری مراد کسی بھی قسم کے انسانی طرز عمل سے ہے۔ اس لیے ہم اندرونی خصلتوں اور انفرادی اور سماجی رویوں کے مجموعہ کو اخلاقیات کہتے ہیں۔
حجت الاسلام شکیبائی نے مزید کہا: اس تمہید سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری بحث کا موضوع اسلامی حکومت کے عہدیداروں کے طرز عمل اور خصوصیات کا وہ مجموعہ ہے کہ جس کا حکم امیر المومنین (ع) نے انہیں حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ اگرچہ ان میں سے زیادہ تر اخلاقی احکامات امیر المومنین علیہ السلام کے وہ فرامین ہیں جن کا مشاہدہ دوسرے مسلمانوں اور حکام کی زندگیوں میں بھی ہونا چاہیے، لیکن معاشرے کے مختلف طبقوں پر ایک حکمران، صدر مملکت اور دیگر عہدیداران کے بااثر کردار کی وجہ سےان نکات کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔
یہ نکات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1- تقویٰ:
تقویٰ اور تذکیہ نفس کی افادیت کاکوئی منکر نہیں ہے کیونکہ جس موضوع کو خداوندنے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد ذکر کیا ہو قدافلح من زکّٰھا وقدخاب من دسّٰھا؛ کہ سعادت اورکامیابی صرف اس کا مقدر بنے گی جو تذکیہ نفس کے زیور سے آراستہ ہوگا اس کی اہمیت میں ذرہ برابرشک کی گنجائش نہیں رہتی۔تذکیہ نفس ہر انسان کے لیے ضروری ہے لیکن ایک رہبر اورراہنما کے لیے اس کی ضرورت اوراہمیت دوسروں کی نسبت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی نشیب وفرازکا نام ہے اورتذکیہ نفس انسان کو اس سعادت اورشقاوت کے نشیب وفراز سے ڈھکی وادی سے نکال کر سعادت کے ساحل پر لاکھڑا کرتا ہے کیونکہ انسان کا نفس ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے اگر تذکیہ نفس کے تازیانوں سے رام نہ کیا جائے تو انسان کے دامن میں بدبختی اورتباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا خصوصا ایک رہبر اورراہنما کے لیے کہ جس کے کاندھے پر اپنے بوجھ کے ساتھ عوامی قافلے کی مہار بھی موجود ہے اسی لیے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتےہیں کہ:فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح ،فاملک ھواک ،وشح ّ بنفسک عما لایحل لک ؛ تمھارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہانا چاہیے ،خواہشات کوروک کررکھو اورچیز حلال نہ ہو اس کے لیے نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس بیان میں تذکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے اوراس پر اصرارفرمایا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی کی سعادت میں قانون نافذ کرنے والوں کی لیاقت اوراہلیت خود قانون کی نسبت زیادہ موثر اوراثرانداز ہوتی ہے ۔
یا جب محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر بنایا گیا تو وہ خط 27 میں فرماتے ہیں: واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرۃ فشارکوا اھل الدنیا فی دنیاھم ،ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم ؛سکنوا الدنیا بافضل ماسکنت ۔۔۔بندگان خدا !یارکھو کہ پرہیزگار لوگ دنیا اورآخرت کے فوائد لے کر آگے بڑھ گئے وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے ؛وہ دنیا میں بھی بہترین زندگی گزارتےرہے۔
2- حق پرستی اور حق محوری:
علوی حکومت کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت امام علیہ السلام کی حق پرستی تھی اور امام علیہ السلام نے کبھی بھی حق کو ترک نہیں کیا اور کسی بھی بنیاد پر کسی باطل کو اختیار نہیں کیا۔ امام علیہ السلام لوگوں کے حقوق کی رعایت کرنے میں کسی بھی امر سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
آپ علیہ السلام خطبہ متقین، خطبه ۱۹۳میں ایک پرہیزگار اور حق پرست انسان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لا یدخل فی الباطل و لا یخرج من الحق
خطبہ متقین؛ خطبہ نمبر193 میں متقین کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ "لا یدخل فی الباطل و لا یخرج من الحق" یعنی نہ باطل کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور نہ جادۂ حق سے قدم باہر نکالتا ہے۔
3- عدالت و انصاف:
حجۃ الاسلام شکیبائی نے کہا: وہ خصوصیت جس نے امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کو دیگر خصوصیات سے زیادہ مشہور کیا ہے وہ اس عظیم امام کا عدل و انصاف ہے۔ اگر ہم علوی حکومت کے دو اہم عناصر کا نام لینا چاہیں تو وہ ہیں "حق پرستی اور عدالت"۔
امام علیہ السلام حکومتی امور میں انصاف کرنے کے لیے خط نمبر 53 میں فرماتے ہیں "و آس بینهم فی اللحظة و النظرة و الإشارة و التحیة حتی لا یطمع العظماء فی حیفک و لا ییأس الضعفاء من عدلک"۔ یعنی رعیت سے خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آؤ۔ ان سے اپنا رویہ نرم رکھو اور کنکھیوں اور نظر بھر کر دیکھنے اور اشارہ اور سلام کرنے میں برابری کرو، تاکہ بڑے لوگ تم سے بے راہ روی کی توقع نہ رکھیں اور کمزور تمہارے انصاف سے مایوس نہ ہوں۔
4- امانتداری:
بلاشبہ امانت ایسی صفت ہے کہ جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اورجب اسی صفت کا ذکر رہبری اور قیادت اور نہج البلاغہ میں حکمرانو ں کے بارے میں کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ قیادت اور رہبری ایک قسم کی الہی امانت ہے صحیح طریقے سے رہبری کرنا اور اسلامی قوانین کو جاری کرنا ہی امانتداری ہے ،امام علی علیہ السلام اشعث بن قیس کو مخاطب کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ: یاد رکھ وزارت کا عہدہ تیرے کھانے اور پینے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے جو تیری گردن پر ہے۔
اسی طرح امیرالمومنین علیہ السلام مکتوب نمبر ۲۶ میں اپنے بعض وزراء کو خط لکھتے ہوئے یہی چیز بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :ومن استھان بالامانۃ ورتع فی الخیانۃ" یعنی جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اور خیانت کی چراگاہ میں داخل ہو گیا اور اپنے نفس اوردین کو خیانت کاری سے نہیں بچایا اس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اور آخرت میں تو ذلت و رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اوریاد رکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے۔
5- خدمت گزاری:
حجت الاسلام شکیبائی نے کہا: حکومت کا وجودی فلسفہ عوام کی خدمت کرنے میں ہے اور ہر سطح پر تمام عہدیداران اور کارکنان درحقیقت عوام کے خادم ہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام نے حکمت 372 میں جابر بن عبداللہ انصاری کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "یا جابر، من کثرت نعم الله علیه کثرت حوائج الناس الیه، فمن قام لله فیها بما یجب عرضها للدوام و البقاء، و لم یقم فیها بما یجب عرضها للزوال والفناء" یعنی اے جابر! جس پر اللہ کی نعمتیں زیادہ ہوں گی لوگوں کی حاجتیں بھی اس کے دامن سے زیادہ وابستہ ہوں گی، لہٰذا جو شخص ان نعمتوں پر عائد ہونے والے حقوق کو اللہ کی خاطر ادا کرے گا، وہ ان کیلئے دوام و ہمیشگی کا سامان کرے گا اور جو اِن واجب حقوق کے ادا کرنے کیلئے کھڑا نہیں ہو گا وہ انہیں فنا و بربادی کی زد پر لے آئے گا۔
6- رواداری:
نہج البلاغہ کے اس استاد نے کہا: جو شخص حکومتی نظام میں کسی بھی سطح پر تعینات ہو، خاص طور پر صدر یا وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ تمام امور کو انتہائی تحمل اور بردباری کے ساتھ انجام دے اور کسی کے تمسخر، غیبت، تہمت، افواہوں اور کیچڑ اچھالنے وغیرہ سے ناراض نہیں ہونا چاہئے یا ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور بڑے صبر و تحمل کے ساتھ خدمت کرنی چاہئے۔
نہج البلاغہ خط نمبر 51 میں امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں "واصبروا لحوائجهم" یعنی لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ان کے ساتھ صبر و حوصلہ سے پیش آؤ۔
7- احساسِ ذمہ داری:
نہج البلاغہ کے ماہر نے کہا: ذمہ داری کا احساس حکومتی اخلاقیات کا ایک بنیادی جز ہے، اس طرح کہ کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری کا مطلب صحیح راستہ چھوڑ کر کجی اور غلط کام کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
خطبہ 103 میں امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "و ان من ابغض الرجال الی الله تعالی لعبدا و کله الله الی نفسه، جائراعن قصد السبیل،سائرا بغیر دلیل.ان دعی الی حرث الدنیا عمل،وان دعی الی حرث الآخره کسل! کأن ما عمل له واجب علیه،و کان ما ونی فیه ساقط عنه!" یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسند، اللہ کو وہ بندہ ہے جسے اللہ نے اس کے نفس کے حوالے کر دیا ہے۔ اس طرح کہ وہ سیدھے راستے سے ہٹا ہوا اور بغیر رہنما کے چلنے والا ہے۔ اگر اسے دنیا کی کھیتی (بونے) کیلئے بلایا جاتاہے تو سرگرمی دکھاتا ہے اور آخرت کی کھیتی (بونے) کیلئے کہا جاتا ہے تو کاہلی کرنے لگتا ہے۔ گویا جس چیز کیلئے اس نے سرگرمی دکھائی ہے وہ تو ضروری تھی اور جس میں سستی و کوتاہی کی ہے وہ اس سے ساقط تھی۔
اسی طرح سے دوسری صفات جیسے:
8- امام کی اطاعت
9- رواداری اور احسان
10- مہربانی و شفقت سے پیش آنا
11- عاجزی و انکساری
12- نظم و ضبط
13- امور کی پیگیری کرنا
14- شجاعت اور پائیداری
15- فیصلہ کرنے میں قاطعیت اور کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرنا۔
امیر المومنین علیہ السلام خطبہ نمبر 192 میں ایک حاکم یا مسئول کے فیصلہ کن ہونے کی صلاحیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "و لکن الله سبحانه جعل رسله أُولی قوة فی عزائمهم و ضعفة فیما تری الأعین فی حالاتهم مع قناعة تملأ القلوب و العیون غنی" یعنی "لیکن اللہ سبحانہ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی اور آنکھوں کو دکھائی دینے والی ظاہری حالت میں کمزور و ناتواں قرار دیتا ہے اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے جو (دیکھنے اور سننے والوں کے) دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے"۔